جو میں نے دیکھا‘ سنا‘ اور سوچا ایڈیٹر کے قلم سے
ایک دیرینہ دوست نے فون کیا کہ بلوچ فوت ہوگیا۔ یکایک جھٹکا لگا کہ پچھلے دنوں تو میرے سامنے بیٹھا اپنے گھریلو مسائل بیان کررہا تھا پھر کیا ہوا ‘ کہا بیٹھے بٹھائے دل کا دورہ پڑا اور وہ فوت ہوگیا۔ بس اسی پل میرے خیالات میں وہ نقشہ اور گزری پچھلی زندگی گھومنا شروع ہوگئی۔ بلوچ جوان ہوا گھر میں غربت تنگدستی اور مسائل ہی مسائل تھے بس سب سے بڑا مسئلہ غربت اور جہالت تھا بلکہ غربت سے بھی بڑا مسئلہ جہالت ہے جس نے سب کی شناسائی اور اعلیٰ ڈگری دی معاشرے نے کہا کہ علم ملا یہ فن تو ملا لیکن علم نہ ملا۔ علم تو پیدا کرنے والے اور زندگی میں آنے کے مقصد کو پہچاننے کا نام ہے۔ بلوچ کے پاس نہ دنیا کا فن یعنی علم اور نہ ہی آخرت اور رب شناسی تھی۔ ایک گائوں کا رہنا والا تھا‘ بڑے شہر لاہور کا رخ کیا۔ اندرون شہر کی ایک لڑکی سے آنکھیں چار ہوئیں دونوں دل دے بیٹھے۔ یوں شادی ہوگئی‘ مٹھائی کی دکان پر ملازمت کی پھر خود کاریگر بن گیا۔ یہاں لاہور میں اپنی دکان لگالی۔ بہت کام کیا‘ بہت رقم تھی سب سے پہلا اس علاقے میں ٹیلی فون بلوچ کا لگا جس دور میں بہت مشکل سے ٹیلی فون لگتے تھے بس یہ دولت کی فراوانی اور مال کی زیادتی پھر آخرت کے علم سے بھرپور جہالت یہ سب مل کر بلوچ کو اپنی سیدھی راہوں سے بھٹکا بیٹھی۔ بلوچ کی بیوی غربت میں ساتھی تھی جب ایک ٹوٹی چارپائی گھر میں تھی اور ہر طرف بچے ہی بچے تھے پھر مال و زر نے جگہ پائی تو بلوچ کو جوئے کی لت پڑ گئی۔ میرے ساتھ صبح کی سیر میں ایک جہاں دیدہ عمر رسیدہ بزرگ حاجی محمدافضل صاحب ہوتے ہیں وہ اکثر فرماتے ہیں کہ کھانے پینے والی چیزیں بنانے والوں کو جوئے کی عادت ہوتی ہے چونکہ اس میں آمدن زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے اکثر کھانے پینے والے جوئے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بس یہی کہانی بلوچ کی بھی بن گئی۔ مال کی کمی نہیں‘ دولت بھرپور تھی ہر طرف عروج اور نام تھا۔ محسوس نہ ہوا لیکن برائی آخر برائی ہوتی ہے۔ جوئے کا انجام غربت پریشانی تنگدستی ضرور ہے۔
ہوا یہ کہ بلوچ کو کسی نے مشورہ دیا کہ بیوی کو سیاست میں لے آ‘ اگر یہ کونسلر بن جائے گی تو بڑے بڑے لوگ تیرے گھر میں ووٹ لینے کیلئے چکر لگائیں گے تیری ہر طرف واہ واہ ہوگی‘ بلوچ کے تعلقات تھے‘ بیوی سیاست میں آگئی اور کونسلر بن گئی۔ بلوچ بہت خوش تھا۔ واقعی واہ واہ ہوگئی لیکن جوا اپنا کام دکھاتا گیا کاروبار میں زوال آنا شروع ہوا پھر اس کو سہارا دینے کیلئے سود کا سودا کیا لیکن سود نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ زوال بڑھتا چلا گیا آخر وہی غربت مفلسی جہاں سے زندگی کی ابتدا شروع ہوئی واپس وہیں پہنچی۔ اتنی غربت کے بس قلم اور زبان سے بیان نہ ہوسکے۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ بیوی نے جب سیاست کے نام پر گھر سے باہر قدم رکھا نئے چہرے‘ نئی دنیا اور نیا انداز دیکھا بس کسی سے دوستی ہوگئی جس عورت کی بیٹی کی بھی اولاد تھی وہی کسی غیرمرد سے مبتلا گناہ ہوگئی۔ بلوچ پر یہ سچائی کھلی تو میرے پاس آیا‘ کہنے لگا کیا کروں؟ میں نے کہا کہ نرمی اور محبت۔ لیکن اس نے سختی کی بیوی نے ہمیشہ نجات کیلئے تنسیخ نکاح کا دعویٰ کردیا کچھ بچے بیوی کے پاس‘ کچھ بلوچ کے پاس‘ زندگی کی شام یعنی بڑھاپے میں یہ غم بلوچ کو کھاگیا۔ آخر بلوچ سود‘ جوا اور سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا بس بیٹھے بیٹھے دل کو زندگی دے بیٹھا اور فوت ہوگیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں